بزرگ کی کرامت
Buzurg Ki Karamat
بیان کیا جاتا ہے کہ کو ہستان لبنان کے رہنے والے ایک بزرگ ایک دن مشق کی جامع مسجد میں حوض کے کنارے بیٹھے وضو کر رہے تھے اتفاق سے ان کا پاؤں کچھ اس طرح پھسلا کہ وہ حوض میں گر گئے اور لوگوں نے انھیں بصد دشواری پانی سے نکالا۔
بعد ایک شخص ان بزرگ کے پاس آیا اور بہت ادب کے ساتھ سوال کیا کہ حضر، مہربانی فرما کر یہ تو بتائیے کہ جناب کی آج کی پہلی حالت میں اس قدر فرق کیوں نظر آیا ؟ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک بار میں جناب کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ ہمارے راستے میں ایک دریا آیا تو جناب نے بغیر کشتی اور پل کے اس دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ جناب کے پیروں کے پنجے بھی پوری طرح نہ بھیگے تھے، جب کہ آج یہ حالت دیکھی گئی کہ جناب ایک معمولی حوض میں گر گئے اور خود باہر نہ نکل سکے ؟
بزرگ نے یہ سوال سن کر کچھ دیر غور کیا اور پھر فرمایا، اے عزیز! اس سلسے میں پیغمبر بر حق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا فرمان قابل غور ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ کبھی میری یہ حالت ہوتی ہے کہ براہ راست اللہ پاک کی قربت کا شرف حاصل ہوتا ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی واسطہ نہیں بتے۔ اس فرمان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”کبھی” ارشاد فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا۔
اس طرح حضرت یعقوبؑ کے بارے میں تم نے سنا ہو گا کہ ایک وقت تو وہ تھا کہ جب حضرت یوسف کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں گرا دیا تھا اور حضرت یعقوبؑ کو معلوم نہ ہوسکا تھا کہ ان کا پیارا بیٹا کہاں ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھوں نے سینکڑوں کوس دور سے حضرت یوسفؑ کے کرتے کی خوشبو سونگھ لی۔ ان کا ارشاد ہے۔
حالت ہماری برق ضیا بار کی سی ہے
ظاہر ہوئی کبھی، کبھی رو پوش ہو گئی
کھلتے ہیں لوح دل پہ کبھی آسماں کے راز
ہوتی نہیں کبھی ہمیں خود سے بھی آگہی
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہ بات بتائی ہے کہ انبیا اور اولیا سے جو معجزات اور کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں ان کا انحصار ان کی ذاتی کوششوں یا اپنے کمالات پر نہیں بلکہ یہ سب کچھ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے۔ منعم کمالا ت خدا ہی کی مقدس ذات ہے۔