قیام پاکستان
پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا کام 3 جون 1947ء کی برطانوی تجویز کے مطابق شروع ہو گیا۔ دونوں صوبوں کی حد بندی کے لئے جدا جدا کمیشن مقرر ہوئے ۔ جن کا صدر ایک ہی شخص یعنی ریڈکلف مقرر ہوا بنگال حد بندی کمیشن کے ارکان میں مسٹر جسٹس سجن کمارمکرجی‘ مسٹر جسٹس سی سی لپواس، مسٹر جٹس ابوصالح محمد اکرم‘ مسٹر جسٹس ایس اے رحمان شامل تھے اور پنجاب حد بندی کمیشن کے ارکان میں مسٹر جسٹس دین محمد مسٹر جسٹس محمد منیر، مسٹر جسٹس مہر چند مہاجن اور مسٹر جسٹس تیجا سنگھ شامل تھے۔
حد بندی کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ ہر دو صوبوں میں دونوں حصوں میں حد بندی متصل مسلم اکثریت اور غیر مسلم اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر کرے۔ حد بندی کر نے میں کمیشن دیگر امور کا بھی لحاظ رکھے۔
دونوں جانشین حکومتوں نے غیرمبہم الفاظ میں وعدہ کیا کہ وہ حد بندی کمیشنوں کا فیصلہ تسلیم کریں گی ۔ خواہ یہ فیصلہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اس پابندی کی وجہ سے کمیشن کے ہاتھ اور زیادہ مضبوط ہو گئے اور کمیشن کے صدر کو بددیانتی کے لئے کھلی اجازت مل گئی۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ آینده قائم ہونے والی حکومتوں نے بھی حتمی طور پر اقلیتوں سے منصفانہ سلوک کرنے کا وعدہ کیا اور یہ یقین دلایا کہ 15 اگست 1947ء سے پہلے کے سیاسی حریفوں کے خلاف کوئی بدسلوکی روا نہ رکھی جائے گی ۔ ان اعلانات وعزائم کی موجودگی میں تبادلہ کی ضرورت کا کسی کو خیال تک نہ تھا۔ وائسرائے ہند اپنے ایک اعلان میں ہی ظاہر کر چکے تھے کہ وسیع پیمانے پر تبادلہ آبادی کی ضرورت کا کسی کو خیال تک نہ تھا۔ وائسرائے ہند اپنے ایک اعلان میں ہی ظاہر کر چکے تھے کہ وسیع پینے پر تبادلہ آبادی ممکن نہیں ۔ اس کے راستے میں کئی عملی مشکلات حائل ہیں ۔ یہ طفل تسلی سادہ لوح مسلمانوں کے حق میں موجب ہلاکت ہوئی ۔ کیونکہ وہ اس ہاتھ کی نرم تھپکی سے پھر ایک دفعہ غفلت کی نیند سوگئے۔
3جون 1947ء کے بعد ایک طرف تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بڑے بڑے افسروں کے تبادلے شروع ہو گئے ۔ دوسری طرف سرحدی کمیشنوں نے اپنے اجلاس شروع کر دیئے ۔ مسلمانوں‘ ہندوؤں اور سکھوں نے اپنے اپنے وکیلوں کی وساطت سے اپنے مقدمات کی پیروی میں ایڑی چوٹی تک کا زور لگا دیا۔ لیکن اہل نظر خوب جانتے تھے کہ ان کمیشنوں کی ساری کارروائی ایک مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور یہ سیاسی ڈراما محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کھیلا جا رہا ہے۔ جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ریڈ کلف جو دونوں کمیشنوں کے صدر تھے کسی ایک اجلاس میں بھی شریک نہ ہوئے۔
به جمعرات کا دن تھا اور 14 اگست 1947ء بمطابق 26 رمضان المبارک 1366 کی تاریخ تھی اس دن صبح ہی سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی ( موجودہ سندھ اسمبلی) کی عمارت کے سامنے پر جوش عزم جمع تھے جب پاکستان کے نامزد گورنر جنرل قائداعظم محمدعلی جناح‘ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی معیت میں ایک مخصوص بگھی میں سوار ہو کر اسمبلی پہنچے تو عوام نے پرجوش نعروں اور تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔
اسمبلی پہنچنے کے بعد قائداعظم دستور ساز اسمبلی کی کرسی صدارت پر متمکن ہوئے اور ان کی برابر والی نشست پر لارڈ ماؤنٹ بین تشریف فرما ہوئے ۔ سب سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے شاہ انگلستان کا پیغام پڑھ کر سنایا ۔ جس میں قائد اعظم کو اپنی ریاست کے قیام پر مبارکباد پیش کی گئی تھی۔ پھر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے الوداعی تقریر کی اور پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے سلامتی کی دعا مانگی۔ اس کے بعد قائد اعظم نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور شاہ انگلستان اور وائسرائے کا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ ”ہمارا ہمسایوں سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کا جذبہ کبھی کم نہ ہوگا اور ہم ساری دنیا کے دوست رہیں گے“۔ یوں دنیا کے نقشے پر ایک آزاد وخودمختار اور دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کا اضافہ ہوا جس کا نام پاکستان ہے۔
مسلم لیگ کے لئے 15 اگست 1947ء کی تاریخ بڑی وحشتناک تھی اور کانگریس کے لئے اس میں کوئی دشواری نہ تھی ۔ عبوری حکومت قائم ہوئی جس میں ہندوؤں کی اکثریت نے دہلی سے کہیں جانانہیں ۔ مرکزی حکومت کے تمام دفاتر پورے انتظام کے ساتھ وہیی موجود تھے ۔ اس تمام ملک کے اندر جو ہندوستان کے حصے میں تھا۔ امن و انتظام قائم اور کانگریس کی حکومت برسر اقتدار تمام چھاؤنیوں میں فوجیں اسلحے سمیت تیار اور فضائی اور بحری بیڑے برطانوی دوستوں کی کمان میں مرتب ـ مسلم لیگ کے لئے یہ دشواری کے تمام مغربی پاکستان کے علاقے میں بدامنی ۔ کسی صوبے کی حکومت اس کے اختیار میں نہیں ۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم در پیش صوبہ سرحد اور سلہٹ میں استصواب رائے عامہ ہونا۔ مرکزی حکومت کہیں مو جو نہیں اس کا کوئی سامان بھی نہیں ـ مسلم لیگ کے لیڈر نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے درخواست کی تھی کہ انتقال اختیار کے لئے جون 1948 ء کی تاریخ رکھیں اس کو 15 اگست 1947ء میں تبدیل کرناتباہی کا موجب ہوگا مگر لارڈ ماؤنٹ بین نے جو طے کر لیا تھا وہی کیا۔ 17 اگست 1947ء کو ریڈ کلف نے حدود کے تعین کا خود ساختہ آخری فیصلہ سنا دیا ۔ اس فیصلے میں جس ڈھٹائی اور بد دیانتی سے اسلام دشمنی کا ثبوت دیا گیا اور جس طریق سے انصاف کا خون کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ فیصلہ کیا تھا گویا ہندی مسلمانوں کو کچلنے اور من حیث القوم ان کوختم کرنے کی ایک انتہائی شرمناک کوشش تھی ۔ اس فیصلے میں کسی بھی طے شد اصول کی پابندی نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ عارضی تقسیم کو بالائے طاق رکھنے کے علا وہ اس واضح اور فیصلہ کن اصول کو بھی پس پشت ڈال دیا جو1941 ء کی مردم شماری کوملحوظ رکھنے کے لئے وضع ہوا تھا۔
اس ظالمانہ فیصلے سے پاکستان کی چالیس لاکھ آبادی کو زبردستی ہندوستان میں دھکیل دیا گیا ۔ جس کی وضاحت یہ ہے کہ 3 جون کے اعلان کے مطابق جو اضلاع پا کستان میں شامل تھے ان کی کل آبادی 6 کروڑ 98لاکھ تھی ۔ لیکن حد بندی کمیشن کے فیصلے کے بعد پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 58 لاکھ رہ گئی ۔ اس آبادی میں وہ ریاستیں شامل نہیں جنہوں نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔
فیصلے کے اس اعلان سے پہلے ہی مشرقی پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا تھا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے قتل و غارت کی منظم سازش پہلے ہی تیار کر گئی تھی۔
Hiroshima Ki Tabahi | ہیروشیما کی تباہی
Yahoodi Kay Haq Mein Qazi Shari Ka Faisla | یہودی کے حق میں قاضی شریح کا فیصلہ
20 thoughts on “Qiyam-E-Pakistan | قیام پاکستان”