چیونٹی کے پر
Chunti Kay Per
بیان کیا جاتا، ایک شخص اس قدر مفلس اور نادار تھا کہ تن ڈھانکنے کے لیے اس کے پاس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا۔ وہ اپنا جسم ریت میں چھپا نے رکھتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف سے گزر سے تو اس شخص نے درخواست کی کہ یا حضرت میرے لیے اللہ پاک سے دعا فرمائیے کہ وہ میری غربت دور فرما دے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس پر رحم آگیا۔ آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اور اللہ رب العزت نے چند دنوں ہی میں اس کی غربت کو خوشحالی میں بدل دیا۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف گزرسے تو آپ نے دیکھا کہ اس شخص کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے اوراسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ حضرت فوراً وہاں پہنچے اور لوگوں پوچھا کہ تم اسے کیوں ستار ہے ہو، کیا اس نے کوئی خطا کی ہے؟
لوگوں نے جواب دیا، یہ بہت خراب اور آوارہ آدمی ہے۔ پہلے تو شراب پی کر غل غپاڑا ہی کرتا تھا۔ آج اس نے ایک بے گناہ عورت کو قتل کر دیا۔ اب اسے قاضی کے پاس لے جائیں گے ار وہ اس کے اس سنگین جرم کی سزادے گا۔
لوگوں نے بتایا کہ جب سے خوشحالی ہوا، لوگوں کے لیے مصیبت بن گیا۔ تھا اس کی خوشحالی اس کے لیے عذاب ثابت ہوئی۔ کم ظرف کو طاقت حاصل ہوتی ہے تو وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ خدا نے سب کی حالت ایک جیسی نہیں رکھی یہ عین حکمت کے مطابق ہے۔
مل جاتا اگر بلی کو اڑنے کا ہنر تو
اک آن میں کر دیتی وہ چڑیوں کا صفایا
پا لیتا اگرسینگ گدھا گائے کی مانند
پاس اپنے کسی کو وہ پھٹکنے بھی نہ دیتا
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو کم ظرف اور عالی، شریف اور غیر شریف لوگوں کے مابین دیکھا جاتا ہے۔ کسی کے شریف اور غیر شریف بن جانے کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ فرق موجود ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناقابل تردید سچائی ہے کہ اگر بد فطرت انسان کسی طرح طاقت حاصل کر لیتا ہے تو وہ دنیا کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات خاص طور پر سمجھنے کے قابل ہے کہ اللہ پاک نے جبر سے کسی کو شریف اور کسی کو کمین نہیں بنایا۔ بلکہ یہ دونوں حالتیں انسانوں کے اپنے کیے کی بنا پر ہیں۔ ایک بد فطرت شخص شریف اور بری عادات میں پھنس کر ایک شریف آدمی رذیل بن جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر، اگرچہ دنیا کا نظام چلانے کے لیے انسانوں کا مختلف حیثیتوں میں ہونا فطرت کا تقاضا تو ضرور ہے لیکن یہ بات انسانوں کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ زندگی کے سٹیج پر اپنے لیے کون ساکردار پسند کرتے ہیں۔ اور ان کا یہی اختیار انھیں نباتات، جمادات اور حیوانات سے ممتاز کرتا ہے۔
2 thoughts on “Chunti Kay Per | Sheikh Saadi Ki Hikayat | چیونٹی کے پر”